ہونے سے ایمان زائل ہو جاتا ہے اور اسی طرح کفر کے قولی اور فعلی شعبے ہیں جیسے اختیار طور پر کلمہ کفر کہنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے اور یہ کفر کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے اسی طرح اس کے فعلی شعبوں میں سے کسی شعبے کو اپنانے سے بھی کافر ہو جاتا ہے۔ جیسے بت کو سجدہ کرنا، قرآن حکیم کی اہانت کرنا تو یہ اصل ہے۔‘‘
علامہ جمال الدین القاسمی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں قاضی ابوبکر ابن العربی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’إن الطاعات کما سمی إیمانا کذلک المعاصي تسمی کفرا لکن حیث یطلق علیہا الکفر لا یراد علیہ الکفر المخرج عن الملۃ۔‘‘[1]
’’جیسے طاعات کو ایمان کا نام دیا جاتا ہے اسی طرح معاصی کو کفر کا نام دیا جاتا ہے لیکن جہاں معصیتوں پر کفر کا اطلاق کیا جاتا ہے اس سے ایسا کفر مراد نہیں لیا جاتا جو ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہو۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کو کافر، فاسق اور ظالم قرار دیا گیا، اسی طرح احادیث و سنن میں کتنی معصیتوں اور نافرمانیوں پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر۔))[2]
’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس کے ساتھ لڑنا کفر ہے۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لا ترغبوا عن آباء کم فمن رغب عن أبیہ فہو کفر۔))[3]
’’اپنے باپ دادا سے بے رغبتی نہ کرو جس نے اپنے باپ سے بے رغبتی کی تو یہ کفر ہے۔‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض۔))[4]
’’میرے بعد کافر نہ ہو جانا بعض تمہارا بعض کی گردنیں مارنے لگ جائے۔‘‘
|