Maktaba Wahhabi

23 - 296
از… مفسر قرآن فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ مسلمان مملکتوں کے حکمرانوں کے بارے میں ایک وضاحت ایک استفسار کے جواب میں جواب:…قرآن کریم میں کافروں اور گناہ گار مسلمانوں دونوں کے لیے تہدید و وعید کا بیان ہے لیکن متعدد جگہوں پر دونوں کے لیے تہدیدی الفاظ یکساں استعمال ہوئے ہیں مثلاً:(الْفسِقُونَ الظّلِمُوْنَ) وغیرہ ظاہر بات ہے کہ ہر جگہ جیسے ان کے مصداق مختلف ہیں ان کے معنی بھی مختلف ہیں، جہاں ان الفاظ کے مصداق کافر یا مشرق ہیں وہاں ان الفاظ کے وہ معنی مراد نہیں لیے جا سکتے جہاں ان کا اطلاق مسلمانوں پر کیا گیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بیان کردہ جہنم کی وعید ہے۔ یہ وعید ایسے بہت سے کاموں پر بھی ہے جن کا صدور و ارتکاب مسلمانوں سے بھی ہو جاتا ہے اورکافروں اورمشرکوں کے لیے بھی جہنم کی وعید ہے لیکن دونوں جگہ اس وعید کا مفہوم ایک نہیں ہے۔ مسلمان کے لیے اس کا مطلب، بطور سزا عارضی دخول ہے اور کافر و مشرک کے لیے دائمی دخول ہے۔ حالانکہ ظاہری الفاظ صرف دخول جہنم کے ہیں، عارضی اور دائمی کی وضاحت کے بغیر۔ یہ فرض کس طرح اور کیسے واضح ہوتا ہے؟ عبارت کے سیاق سے، یا دیگر دلائل سے۔ اگر ذہن میں کجی نہ ہو اور خاص مطلب برآری پیش نظر نہ ہو، تو ہر مقام پر وعید کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق بہ آسانی سمجھ میں آ جاتا ہے یا متعین ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم میں فسق و ظلم کے الفاظ کفر و شرک کے لیے بھی اور عام گناہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن اگر کسی مسلمان سے فسق کا یا ظلم کا ارتکاب ہو جائے تو ہم اس کو کافر و مشرک قرار نہیں دیں گے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کو کفر و شرک کے لیے بھی استعمال فرمایا ہے۔ اسی مختصر سی تمہید سے مقصود مسئلہ تکفیر کی وضاحت ہے جس کا اس وقت شور و غوغا ہے۔ مسلمانوں کا ایک نوجوان طبقہ اس مسئلے میں بے جا سختی کا مظاہر کر رہا ہے۔ یہ شدت جہاں ایک طرف ان کی قوت ایمانی کا مظہر اور مکمل اسلام پر عمل کرنے کے جذبے کی غماز ہے وہاں دوسری طرف، ہم جو چوما دیگرے نیست، کے زعم پندار کی بھی علامت ہے۔ اگر ایک خوبی اور قابل تعریف ہے، تو دوسری بری بات اور قابل مذمت ہے۔ صحیح راستہ (صراط مستقیم) ان دونوں کے بین بین، اعتدال و توازن کا راستہ ہے یعنی خود اسلامی تعلیمات کی حقانیت و صداقت پر پختہ یقین رکھیں اور( ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً (البقرۃ: 208) کا عملی نمونہ بن
Flag Counter