مذکورہ بالا عبارت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پہلی شرط علم بیان کی ہے اور اس کی ضد جہالت مانع تکفیر ہے ایمان کی شرائط میں سے یہ ہے کہ جن اشیاء پر ایمان لانا ہے ان کا علم ہو اور اگر جہالت کی وجہ سے کسی شرعی امر کا انکار کر بیٹھتا ہے اور اس کی جہالت ازالہ کرنے والا کوئی نہیں تو اس کی تکفیر نہیں ہو گی اور یہ مانع شیخ الاسلام سے قبل بھی کئی علماء فقہاء محدثین نے ذکر کیا ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے یہاں صرف ایک حوالہ عرض کر رہا ہوں۔
’’سوید بن سعید الہروی کہتے ہیں ہم نے امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ سے ارجاء کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: مروجہ کہتے ہیں ایمان قول کا نام ہے اور ہم کہتے ہیں ایمان قول اور عمل کا نام ہے اور مرجئہ نے اس شخص کے لیے جنت کو واجب قرار دیا ہے جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اس حالت میں کہ وہ فرائض کے ترک کرنے پر اپنے دل سے مصر اور معترف ہے اور انہوں نے فرائض کے ترک کو حرام چیزوں کے ارتکاب کی طرح ذنب اور گناہ کا نام دیا ہے اور یہ ہرگز برابرنہیں ہے اس لیے کہ حرام کردہ اشیاء کا ارتکاب حلال سمجھنے کے بغیر کرنا معصیت و نافرمانی ہے اور جہالت و عذرکے بغیر جان بوجھ کر فرض ترک کرنا کفر ہے۔‘‘[1]
اس سے معلوم ہوا کہ اگر فرائض کا تارک جہالت و عذر کے ساتھ ہو گا تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا امام ابن قدامہ المقدسی تارک صلاۃ کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ولا خلاف بین اہل العلم فی کفرمن ترکہا جاحدًا لوجوبہا إذا کانممن لا یجہل مثلہ ذلک فان کان ممن لا یعرف الوجوب کحدیث الإسلام والناشی بغیر دارالإسلام أآوبادیہ بعید عن الأمصار وأہل العلم لم یحکم بکفر وعیرف ذلک وتثتبت لہ آدلہ وجوبہا فإن جحدہا بعد ذلک کفر۔‘‘[2]
’’جس شخص نے نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے اسے ترک کیا اہل علم کے درمیان اس کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ وہ جاہلانہ ہو۔ سو اگر وہ ایسے لوگوں میں سے ہو جو نماز کے وجوب کو پہنچانتے نہ ہوں جیسے نو مسلم اور دارالاسلام کے علاوہ کہیں اورپروان چڑھنے والا ہو یا
|