اور عناد اس تصدیق کے منافی ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ جو شخص حلال سمجھ کر محرمات کا ارتکاب کرتا ہے وہ بالاتفاق کافر ہے کیونکہ جس نے قرآن کے محرمات کو حلال ٹھہرایا اس کا قرآن پر ایمان نہیں ہے اور وہ شخص بھی اسی طرح ہے جو محرمات کو حلال سمجھتا ہے مگر ان کا ارتکاب نہیں کرتا استحلال کے معنی اس عقیدے کے ہیں کہ اللہ نے ان کو حرام نہیں ٹھہرایا یا یہ کہ میں ان کی تحریم کا عقیدہ نہیں رکھتا۔‘‘[1]
اور چونکہ کفر عناد بعض اوقات کھل کر سامنے نہیں آتا اس لیے اس کی مزید وضاحت کے لیے ہم آپ کو شیخ الاسلام کی ایک کتاب مجموع الفتاوی کی طرف لیے چلتے ہیں شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان لا یجحد وجوبہا لکنہ ممتنع من التزام فعلا کبرا أو حسدا أو بغضا للّٰہ ورسولہ فیقول اعلم أن اللّٰہ اوجبہا علی المسلمین والرسول صادق فی تبلیغ القرآن ولکنہ ممتنع عن التزام الفعل استکبارا أو حسدا للرسول أو عصبیۃ لدینہ او بغضا لما جاء بہ الرسول فہذا أیضا کافر بالاتفاق فان إبلیس لما ترک السجود المأموربہ لم یکن جاحدا للایجاب فان اللّٰہ تعالی باشرہ بالخطاب وانما أبی واستکبر وکان من الکافرین وکذلک ابو طالب کان مصدقا للرسول فیما بلغہ لکنہ ترک اتباعہ حمیۃ لدینہ وخوفا من عار الانقیاد۔‘‘[2]
’’یعنی وہ نماز کے وجوب کا انکار نہیں کرتا لیکن اس کے نزدیک اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ تکبر، حسد، اللہ اور اس کے ساتھ بغض ہے پس وہ کہتا ہے کہ: میں جانتا ہوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تبلیغ میں صادق ہیں لیکن اس پر عمل کرنے کے لیے اس کے پاس ممانعت کی صورت میں تکبر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد ہے یا اپنے دین کی عصبیت ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین لائے اس کے ساتھ بغض ہے۔ تو یہ بالاتفاق کافر ہے جیسا کہ ابلیس نے جب سجدہ ترک کیاجس کا اسے حکم دیا گیا تھا تو وہ سجدہ کے وجوب سے انکار نہ کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو أبی واستکبر وکان من الکافرین کا مرتکب ٹھہرایا اور اس کو کفارمیں شمارکیا اسی طرح ابو طالب کا معاملہ ہے وہ رسول کی اس کام میں تصدیق کرنے والا تھا جو اسے پہنچا لیکن اتباع رسول کو اپنی دینی حمیت اور اطاعت کے طعنہ کا
|