صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کو نہ پایا ہو اور وہ زمانے کی سختی والے اس دَور میں اس طرح زندگی گزار رہا ہو کہ وہ کسی بدعت کو دیکھے جو اپنی بدعت کی دعوت دے رہا ہو اور کسی دنیا دار کو دیکھے کہ وہ اپنی دنیا کی طرف اُسے دعوت دے مگر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اس فتنے سے بچا لے اور اس کے دل کو اس طرح کر دے کہ وہ سلف صالحین کا ہی مشتاق رہے اور وہ انہیں کے طریق و منہج کے بارے میں دریافت کرتا رہے اور اُنہیں کے آثار کو بیان کرتا رہے اور اُنہیں کی راہ پر چلتا رہے تو اس آدمی کو بہت بڑا اجر و انعام (اللہ رب العالمین کی طرف سے) عطا ہو گا۔ پس لوگو! اللہ چاہے تو اس طرح کے بن جاؤ۔‘‘ [1]
۲۱…ایک با عمل بڑے عالم جناب فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کی بات کس قدر شاندار ہے۔ فرماتے ہیں :’’ہدایت مستقیم کی راہوں پر چلو۔ اس راہ پر چلنے والوں کی قلت تعداد تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ البتہ گمراہی کے راستو ں سے بچو۔ اور ہلاک و برباد ہونے والوں کی کثرت دیکھ کر کہیں اُن پر فریفتہ نہ ہو جاؤ۔‘‘ [2]
۲۲…سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اُس شخص سے کہ جس نے آپؓ سے مسئلہ دریافت کیا اور آپؓ کے جواب میں اُس نے کہا تھا:تمہارے ابو جان (امیر المؤمنین عمر بن الخطا ب رضی اللہ عنہ) نے تو اس سے منع فرمایا ہے … فرمایا تھا:
((أَ أَمْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَحَقُّ أَنْ یُتَّبعَ ، أَو أَمرُ أَبِیْ؟۔)) [3]
’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کی اتباع کی جائے یا میرے باپ کا حکم؟‘‘
|