Maktaba Wahhabi

35 - 127
زہدو تقویٰ اور ہمارے اسلاف جمشید سلطان اعوان[1] مقدمہ ’إن الحمدَ لله نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرورِ أنفسنا وسيئاتِ أعمالنا، مَنْ یھْدِهِ اللهُ فلا مُضِلَ لَه ومَنْ يُضْلِلْ فلا هَادِيَ لَه، وأشھد أن لا إلٰه إلا الله الواحد القھار شھادۃ أدخرها ليومٍ تذهل فيه العقول وتشخصُ فيه الأبصار‘ دنیا مستقل رہنے کی جگہ نہیں بلکہ سفر کی اور گزرجانے کی ہے ٹکنے کی جگہ نہیں ، عبرت کی جگہ ہے اور عیش وعشرت کا مقام نہیں۔ اور انسان محض اس میں ایک مسافر کی طرح ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آخرت کو دار القرار کا نام دیاہے ۔دنیا کا غنی دراصل فقیر ہے ، اس کاعزیز حقیقت میں ذلیل ہے،اس کی ہر شےکو فنا ہے اور اس کی محبت کو جفا ہے ،اس کے عروج کو زوال ہے اس کی لذتیں معدوم ہونے والی ، اس کی مجالس برخواست ہونے والی، بصیرت والی نظریں اس کی نعمتوں کو ابتلا و امتحان ہی گردانتی ہیں، مسکین ہیں وہ روحین جو اس کی نعمتوں پر ہی راضی ہو بیٹھی ہیں یہ دنیا پر جس کے حلال کا حساب دینا ہوگا اور اس کے حرام کے اختیار پر عقاب ہوگا ، جس کا غنی فتنہ میں گھرا ہے اور اس کا فقیر غم و حزن میں مبتلا ہے ،کوئی عقلمند کسی طرح دنیا ہی پر مطمئن ہوسکتا ہے کیسے کوئی عاقل اس دار رفاقت پر اکتفا کر سکتا ہے کیوں کر کوئی ہنس سکتا ہے جبکہ اس کی چاروں طرف ہم وغم کی، آہ و بکاکی فضا ہو اس کے بدلے کیسے کوئی جنت کوبیچتاہے اور بقا کے بدلے فنا کو خرید لیتاہے۔ ضرورت اس بات کی کے کہ ہم اس کی تیاری کریں جس کو دنیا کے برعکس بقاو دوام ہے جس کی کامیابی
Flag Counter