Maktaba Wahhabi

51 - 127
اڑانا ، یا دین وشعائر ِ دین پر طعنہ زنی وعیب جوئی کرنا اس کا تمسخر اڑانا استہزاء کہلاتاہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رذالت سے محفوظ فرمائے ۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ سخریہ واستہزاء سے مراد اتضحیک ، استخفاف اور تحقیر ہے ۔ نیزعیب ونقائص اس انداز سے بیان کرنا کہ جس سے مذاق اڑے، ہنسا جائے ،یہ تضحیک وتحقیر کبھی قول وفعل کی شکل میں ہوتی ہے ۔ اور کبھی اشارہ وکنایہ کی صورت میں بھی ‘‘ ۔ [1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں :’’ اگر کسی نام کی لغتِ عرب میں تعریف موجود نہ ہو جیسا زمین ، آسمان ، بحر ، شمس ، قمر کے نام ہیں ، اور نہ ہی اس کی تعریف شرعی اصطلاح میں موجود ہو جیسے صلوٰۃ ، زکاۃ ، حج ، ایمان ، کفر کے الفاظ ہیں تو ایسے لفظ کی تعریف متعین کرنے کیلئے عرف کو مدّ نظر رکھا جاتاہے ۔ جیسے قبض( کسی چیز کو قبضہ میں لینا ، حرز ، بیع ، رھن ، کِری (کرایہ )، وغیرہ کے الفاظ ہیں ( جن کی تعریف عرف کی رو سے متعین ہوتی ہے ) ۔ اسی طرح تکلیف ، گالم گلوچ ، سب وشتم میں عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا ،لہٰذا جن الفاظ وکنایات وافعال کو اہل عرف گالی ، عیب جوئی ، اور طعنہ زنی شمار کرتے ہیںتو وہ استہزا شمار ہوگا وگرنہ نہیں ۔ لہٰذا اسی طرح اگر کوئی لفظ یا گالی غیر نبی کو دی گئی جس کی بنا پرکسی نہ کسی رو سے دینے والے پر کوئی حد یا تعزیر متعین ہوتی ہو وہ الفاظ اگر نبی کیلئے الفاظ استعمال کئے جائیں تو سب وشتمشمار ہوں گے ‘‘۔ [2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس عبارت سے واضح ہوتاہے کہ سب وشتم استہزاء وتمسخر کی کوئی ایک جامع مانع تعریف نہایت مشکل کام ہے لہٰذا اس باب میں ضابطہ یہ ہے کہ جو قول ، فعل ، اور حرکت اہل عرف کے ہاں تنقیص ، استہزاء اور گالی شمار ہوتی ہو وہ گالی واستہزاء ہی شمار ہوگا ۔اور عرف کی تفسیر ہی اس کی تعریف ہوگی ۔
Flag Counter