Maktaba Wahhabi

422 - 444
وَقَالَ :لَوْ کَانَ الْکَلامُ عِلْمًا لَتَکَلَّم فِیْہِ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ کَمَا تَکلَّمُوا فِی الْأَحْکَامِ:وَلِکنَّہُ بَاطِلٌ یَدُلُّ عَلَی بَاطِلٍ)) [1] ’’سنت کی مثال تو نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے ، جو اس میں سوار ہو گیا اُس نے نجات پا لی اور جو اس سے پیچھے رہ گیا(اور اس میں سوار نہ ہو سکا۔) وہ غرق ہو گیا (بدعت و خرافات کے گہرے سمندر میں) اور پھر آپ رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ:اگر کلام کرنا کوئی علم ہوتا تو اس میں صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم ضرور گفتگو کرتے۔ (یعنی اپنی آراء کا اظہار دین کے بارے میں بہت کرتے۔) جیسے کہ انہوں نے احکام میں گفتگو کی ہے۔ لیکن علم کلام باطل ہے ، جو باطل پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ ابن الماجشون رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو سنا، فرماتے تھے: ((مَنِ ابْتَدَعَ فِی الْاسلَامِ بِدْعَۃً یَراھَا حَسَنَۃً، فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَانَ الرِّسَالۃَ، لأَنَّ اللّٰہَ یقولُ ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ فما لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا فَلا یَکُونُ الْیَوْمَ دِیْناً۔)) [2] ’’جو شخص اسلام میں کسی بدعت کو ایجاد کرے اور اسے وہ نیکی سمجھ رہا ہو تو گویا وہ یہ گمان رکھتا ہے کہ (نعوذ باللہ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت و رسالت میں خیانت کی تھی۔اس لیے کہ اللہ عزوجل قرآن میں فرماتے ہیں :﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي
Flag Counter