مِنْھَا، والبِدْعَۃُ لَا یُتَابُ مِنْھَا۔)) [1]
’’شیطان کے نزدیک عام معصیت کی نسبت بدعت زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ عام معصیت و نافرمانی سے توبہ کی جاسکتی ہے مگر بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی۔‘‘ (کیونکہ بدعتی یہ عمل اجر و ثواب سمجھ کر کرتا ہے۔)
۱۵…محدث و مجاہد امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((لِیَکُنِ الَّذِیْ تَعْتَمِدُ عَلیَہِ الْأَثَرَ، وَخُذْ مِنَ الرَّأْیِ مَا یُفَسِّرُلَکَ الْحَدِیْثَ۔)) [2]
’’جس مسئلہ میں تم حدیث(یا کسی صحابی کے اثر) پر اعتماد کرتے ہو وہی تمہارے ہاں قابل اعتبار ہونا چاہیے اور قیاس، رائے میں سے اس کو اختیار کرو جس کی تفسیر تمہارے لیے حدیث کرے۔‘‘
۱۶…امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((کُلُّ مَسأَلَۃٍ تَکَلَّمْتُ فیھا بِخِلَافِ السُنَّۃِ، فَاَنَا رَاجِعٌ عَنْھَا:
فِی حَیاتِی وَبَعْدَ مَماتِی۔))[3]
’’ہر وہ مسئلہ کہ جس میں خلاف سنت میں نے کلام کی ہو، اُس سے میں نے رجوع کر لیا ، اپنی زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی۔‘‘ (یعنی میرے فوت ہونے کے بعد بھی اگر میرے بتلائے ہوئے مسئلہ کے خلاف کوئی حدیث مل جائے تو میری بات کا اعتبار نہ کیا جائے۔)
|