Maktaba Wahhabi

276 - 444
طرف جانے کے وقت (کہ جب ہم قبرستان میں داخل ہوں) یوں سکھایا تھا۔ یوں کہا کرو: ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَا حِقُوْنَ، أَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ)) [1] ’’اہل ایمان اور مسلمانوں کے گھروں (قبروں) والو! تم پر سلام ہو۔ بلاشبہ ہم اللہ نے چاہا تو تم لوگوں سے ضرور ملنے والے ہیں۔میں اللہ عزوجل سے اپنے لیے اور تمہارے لیے (اللہ کی گرفت سے) عافیت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ (یہاں ان شاء اللہ یقین کے معنی میں ہے۔) سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جو شخص اپنے نفس پر (پورے یقین کے ساتھ) اس بات کی گواہی دے کہ بلاشک و شبہ وہ مومن ہے تو وہ اس بات کا بھی گواہ رہے کہ بلاشبہ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔‘‘ [2] جناب منصور بن معتمر ، جناب مغیرہ، اعمش ، لیث ، عمارہ بن قعقاع، ابن شبرمہ، العلاء بن مسیب، یزید بن ابو زیاد، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور دیگر ان گنت علماء عظام و محدثین کرام و فقہاء کبار رحمہم اللہ جمیعاً ایمان کے بارے ’’ان شاء اللہ‘‘ کا کلمہ استعمال فرماتے اور جو اس ضمن میں ’’ان شاء اللہ ‘‘ نہ کہتا اُس پر عیب لگاتے تھے۔[3] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:’’ایمان زبان سے اقرار، اعضائِ وجود سے عمل اور نیت ، تینوں سے مل کر مکمل ہوتا ہے۔‘‘ ان سے پوچھا گیا :اگر کوئی شخص کسی دوسرے آدمی سے پوچھے:کیا تم مومن ہو؟ اور وہ کہے:ہاں۔ تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:’’ یہ بدعت ہے۔‘‘ پوچھا گیا:
Flag Counter