تو وہ آدمی پوچھنے والے سے کہا کہے؟ فرمایا:وہ کہے:مُؤْمِنٌ اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔
اہل السنہ والجماعۃ اہل الحدیث سلفی حضرات کے نزدیک … بندے سے ایسے کسی فعل کے ارتکاب سے ایمان کا وصف سلب نہیں کیا جاتا کہ جس کا ارتکاب کرنے والا قابل احتیاط افعال کا انکار نہ کرتا ہو۔ یا وہ کسی ایسے واجب کام کو چھوڑ دے کہ یہ چھوڑنے والا فرائض و واجبات میں سے کسی کا انکار نہ کرتا ہو۔ (کسی بھی واجب یا فرض کا وہ منکر نہ ہو مگر غلطی یا سستی کی وجہ سے کوئی فرض چھوڑ بیٹھے تو اُسے ایمان سے خارج شمار نہیں کیا جائے گا۔) اور بندہ کبھی بھی ایمان سے خارج نہیں ہوتا مگر صرف ایسے کسی فعل کے ارتکاب کے ذریعے کہ جو ایمان کے نواقض میں سے شمار ہوتا ہو۔ اسی طرح کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے بھی بندہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ دنیا میں ناقص الایمان بندہ شمار ہو گا کہ جو اپنے ایمان کے ساتھ مومن ہو گا اور اپنے ارتکابِ کبیرہ کی بنا پر فاسق و فاجر۔ جب کہ آخرت میں وہ اللہ عزوجل کی مرضی و مشئیت کے تابع ہو گا۔ اگر اللہ کریم و رحیم چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اسے عذاب و سزا دے گا۔‘‘
اور جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے:ایمان کے تھوڑے سے حصے کو بھی قبول کرتے ہوئے اللہ کریم ایسے شخص کو جہنم سے باہر نکال دیں گے جو اس میں (اپنے گناہوں کی وجہ سے) داخل ہو چکا ہو گا۔ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَخْرُجُ مِنَ النَّارِمَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ ، وَفِی قَلْبِہِ وَزْنُ شَعِیرَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ ، وَیَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ وَفِی قَلْبِہٖ وَزْنُ بُرَّۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ ، وَیَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ وَفِی قَلْبِہِ وَزْنُ ذَرَّۃٍ مِنْ خَیْرٍ (إِیْمَانٍ۔)) [1]
’’جس شخص نے (صدق دل سے) کہہ دیاکہ :اللہ عزوجل کے سواکوئی معبودِ برحق
|