Maktaba Wahhabi

275 - 444
اور اہل السنہ والجماعۃ سلف صالحین ایمان کے بارے میں ان شاء اللہ کہنے کی رائے رکھتے تھے۔ یعنی یوں کہا جائے:میں مومن ہوں ، ان شاء اللہ۔ وہ حضرات اللہ عزوجل سے شدت خوف ، تقدیر پر ان کے ثابت قدم رہنے اور تزکیۂ نفس کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے (قرآن و احادیث مبارکہ میں مطلوب مکمل) ایمان کے بارے میں اپنے متعلق مکمل جازم ہونے کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اس لیے کہ ایمانِ مطلق تمام کے تمام واجب الاطاعات افعال کے سر انجام دینے اور تمام کی تمام منہیات کے چھوڑ دینے کو محیط ہوتاہے۔ مگر جب ایمان کے بارے میں شک کی بنیاد پر کہنا مراد ہو تو پھر وہ ’’ ان شاء اللہ‘‘ کہنے سے منع بھی کرتے تھے۔ چنانچہ اس کے متعلق قرآن و سنت اور سلف صالحین کے آثار میں بہت زیادہ دلائل اور علماء عظام کے اقوال موجود ہیں۔ جیساکہ اللہ رب العالمین کا ارشادِ گرامی قدر ہے: ﴿وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ﴿٢٣﴾ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللّٰهُ ۚ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَـٰذَا رَشَدًا﴾ (الکہف :۲۳۔ ۲۴) ’’ اور کسی بات کو مت کہہ میں کل اس کو کروں گا۔ مگر یوں کہ اللہ چاہے تو۔ اور اگر تو (ان شاء اللہ کہنا) بھول جائے (تو جب خیال آئے) اپنے مالک کی یاد کر (یعنی ان شاء اللہ کہ لے) اور کہہ دے مجھے امید ہے کہ میرا رب اس سے بھی زیادہ ہدایت کی بات مجھ کو بتلادے گا۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ﴾ (النجم:۳۲) ’’پس اپنی پاکیزگی مت جتاؤ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیز گار ہے۔‘‘ سیّدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبرستان کی
Flag Counter