Maktaba Wahhabi

274 - 444
’’فقہاء اور اہل الحدیث اس بات پر متفق ہیں کہ:ایمان … قول و عمل ، دونوں کے مجموعہ کا نام ہے (یعنی عمل کے بغیر ایمان کا کچھ فائدہ نہیں۔) اور عمل نیت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ (یعنی عمل کے لیے نیت صالحہ کا ہونا ضروری ہے۔) اور ان فقہاء و محدثین کرام رحمہم اللہ جمیعاً کے نزدیک ایمان … اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور معصیت و نافرمانی کے ساتھ کم ہو جاتا ہے۔ اور ان سب علمائِ عظام کے نزدیک تمام کی تمام اطاعتوں (اعمالِ صالحہ) کا نام ایمان ہے۔‘‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین عظام و تبع تابعین کرام اور قرآن و سنت کی مکمل اطاعت و احسان کے ذریعے ان حضراتِ گرامی قدر کی پیروی کرنے والے محدثین و فقہاء کرام اور بعد والے دینِ حنیف کے سب آئمہ الامۃ خیر الامم رحمہم اللہ جمیعاً اسی مذکورہ بالا عقیدہ و عمل پر تھے۔ (کہ عمل کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔) اس ضمن میں سلف و خلف کے تمام آئمہ کرام و علماء عظام رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی کسی دوسرے کے ساتھ مخالفت نہیں کی سوائے ان لوگوں کے جو اس باب میں حق سے پھسل کر باطل کی طرف مائل ہو گئے۔ جب کہ اہل السنۃ والجماعۃ سلفی حضراتِ گرامی کہتے ہیں :جس شخص نے ایمان سے عمل کو باہر نکال دیا وہ جانیے کہ مُرجی ، (اُمت اسلامیہ میں فتنہ و فساد بپا کرنے والے ایک فرقہ مرجئہ میں سے) بدعتی اور گمراہ آدمی ہو گا۔ اور جو شخص اپنی زبان سے شہادتین کی گواہی دے اور اپنے دل سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہوئے اُس پر مکمل یقین محکم تو رکھے مگر ارکانِ اسلام میں سے بعض کی ادائیگی میں اپنے اعضائِ وجود کے ساتھ تقصیر کرے اس کاایمان جانیے کہ مکمل نہیں ہوا۔ اور جس نے دراصل شہادتین کا اقرار ہی نہ کیا ہو اس کے لیے نہ ہی ایمان کا نام ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کا۔ (یعنی نہ وہ مومن ہے اور نہ ہی مسلمان)۔
Flag Counter