الْقُلُوْبِ وَصَدَّقَتْہُ الْأَعْمَالُ…)) [1]
’’ایمان صرف آراستہ و مزین ہونے (یا کسی ایک آدھ خوبی سے متصف ہونے) کا نام نہیں ہے اور نہ ہی آرزو مند ہونے کا۔ (جیسے کہ صرف خواہش کرتے رہنا ، کاش لوگ ایسے ہو جائیں ، کاش میں فلاں اچھا کام کر لیتا وغیرہ وغیرہ) بلکہ ایمان وہ ہے جو دلوں میں گھر کر جائے او ر اعمالِ صالحہ اُس کی تصدیق کریں۔‘‘
امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ وَّعَمَلٌ ، یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ ، یَزِیْدُ بِالطَّاعَۃِ وَیَنْقُصُ بِالْمَعْصِیَۃِ ، ثُمَّ تَـلَا :﴿وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِیْمَانًاط﴾ [المدثر:۳۱])) [2]
’’ایمان قول و عمل دونوں کے مجموعہ کا نام ہے جو بڑھتا بھی ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔ یہ اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ بڑھتا اور معصیت و نافرمانی کے ساتھ کم ہو جاتا ہے۔ اور پھر آپ رحمہ اللہ نے اس آیت کی بطورِ دلیل تلاوت فرمائی :’’اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘
حافظ ابو عمر ابن عبدالبر رحمہ اللہ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’التمہید ‘‘ (شرح مؤطا امام مالک رحمہ اللہ) میں لکھتے ہیں :
((أَجْمَعَ اَھْلُ الْفِقْہِ وَالْحَدِیْثِ عَلَی اَنَّ الْاِیْمَانَ قَوْلٌ وَّ عَمَلٌ، وَلَا عَمَلَ اِلَّابِنِیَّۃٍ، وَالْاِیْمَانُ عِنْدَھُمْ یَذِیْدُ بِالطَّاعَۃِ، وَیَنْقُضُ بِالْمَعْصِیَۃِ وَالطَّاعَاتُ کُلُّھَا عِنْدَھُمْاِیْمَانٌ)) [3]
|