وروز میں پانچ نمازیں فرض کیں۔ اسی سفر کے دوران نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کہ جو سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوانے والے ہوں گے) نے جنت میں داخل ہو کر اس کے بعض حصّوں کا معاینہ فرمایا۔ اسی طرح آپ نے جہنم کو بھی اوپر سے دیکھا اور اس کے بارے میں مطلع ہوئے۔ اور آپ نے اسی معراج کے دوران فرشتوں کو بھی دیکھا اور سیّدنا وسیّد الملائکہ جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ان کی اس اصلی و حقیقی شکل و صورت میں دیکھا کہ جس ہیئت پر اللہ رب العزت نے انھیں پیدا فرمایا ہے۔ اور نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے جھوٹ نہیں ملایا۔ (واقعہ ٔ معراج واسراء کی رات والی صبح وہی کچھ بیان کیا جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ کاتھا) بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جو کچھ دیکھاتھا ، پوری کی پوری حقیقت میں اپنی ان دونوں آنکھوں کے ساتھ ہر ہر چیز کا مشاہدہ فرمایا تھا کہ جو اللہ رب العالمین وخالق کائنات نے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک میں چہرہ انور کے اوپر عطا کر رکھی تھیں۔ یہ مکمل سفرمعراج واسراء نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام کی تمام انبیاء و رسل پر سب سے زیادہ عظمت اور آپ کے ان سب پر مرتبہ و مقام کے بلند تر ہونے کے لیے تھا۔ (اس لیے کہ کبھی کوئی نبی اور رسول اس مقام پر نہیں پہنچ سکا تھا) معراج سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پھر) بیت المقدس اترے اور آپ نے تمام انبیاء کرام کی جماعت کراتے ہوئے امام بن کر انھیں نمازپڑھائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے پہلے واپس مکہ تشریف لے آئے۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے معراج کے اس واقعہ کو قرآن عظیم میں اجمال کے ساتھ ایک مقام پر یوں بیان فرمایا ہے :
﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿١١﴾ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿١٢﴾ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ﴿١٥﴾ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ﴿١٦﴾ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ﴿١٧﴾
|