ہر عیب اورنقص سے مبرا مانتے ہیں) تو وہ اُس کی اُن صفاتِ عالیہ و قدوسیہ کو معطل (کہ اُن میں سے بعض ثابت ہیں اور بعض ثابت نہیں یا سب کی سب ثابت نہیں ، اس نظریۂ باطل کو) نہیں مانتے کہ جن کے ساتھ اُس کی ذاتِ اقدس نے اپنی صفت کو خود بنفس الرحمن بیان کیا ہو۔ یہ بات قطعاً اور کبھی بھی جائز نہیں ہے کہ اللہ الرحمن الرحیم کی ذاتِ اقدس کی کیفیت یا اُس کی صفاتِ عالیہ کی کیفیت کا تخیل پیش کیا جائے۔
اہل السنۃ والجماعۃ والے اہل ایمان و اسلام اس بات کا بھی عقیدۂ سلیمہ اور ایمانِ محکم رکھتے ہیں کہ :اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (کائنات کا ذرّہ ذرّہ اُس کے دائمی وغیر محاط بہ علم میں ہے۔) وہی ہر ہر چیز کے ایک ایک حصے اور ہر ہر حصے کے ذرّے ذرّے کا پیدا کرنے والا ہے۔ (اور اس عمل میں نہ کوئی اس کا معاون ہے ، نہ کوئی مشیر، اور نہ ہی شریک حصے دار۔) اور وہی ہر زندہ چیز کو رزق دینے والا ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی ہے:
﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴿١٤﴾ هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ﴾ (الملک:۱۴،۱۵)
’’بھلا یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ اللہ عزوجل اپنی بنائی چیزوں کو نہ جانے اور وہ تو بڑا باریک بین خبردار ہے۔ وہی اللہ رب العالمین تو ہے جس نے زمین کو تمہارے (چلنے پھرنے کے) لیے ملائم (نرم ہموار) کر دیا ہے۔ اس کے رستوں میں چلتے پھرتے رہو اور اس کی دی ہوئی روزی (مزے سے) کھاؤ۔ اور (یہ بھی یاد رکھو کہ) اسی کے پاس تمہیں دوبارہ اُٹھ کرجانا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی بے حد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط
|