Maktaba Wahhabi

85 - 93
حکم بھی مان لیا جائے تو اُس عموم کو دورکعتوں کے جواز والی احادیث سے مخصوص کردیاگیا ہے،اور دورکعتیں پڑھنے والے کو’’خاموش‘‘ قرار دینا بھی جائز ہے،جیسا کہ بخاری و مسلم،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ ص نے تکبیرِتحریمہ اور قراء ت کے درمیانی وقفہ میں محلّ دعاء(سُبْحَانَکَ اللّٰھُم یا اَللّٰھُمَّ بَاْعِدْ بَیْنِيْ وَبَیْنَ خَطَایَاي)پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت کا اطلاق کیاہے۔[1] اگردنیں پھلانگ کر گزرنے والے شخص کا واقعہ مخصوص ہے،اسکا حکم عام نہیں اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اسے بیٹھنے کا حکم دینے کا واقعہ تحیۃ المسجد کی مشروعیت سے پہلے کا ہو،یا تحیۃ المسجد پڑھنے کے بعد بیٹھنے کی شرط ہو،جسکا حکم اُس صحابی کو پہلے سے معلوم ہوگایا پھر اُسے بیانِ جواز پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے،اور یہ بھی امکان ہے کہ وہ خطبہ کے آخر میں ایسے تنگ موقع پر داخل ہو ا ہو کہ دورکعتیں پڑھنے کی گنجائش ہی نہ رہی ہو۔ رہا معاملہ طبرانی والی حدیث کا وہ تو ضعیف ہے،اس کی سند کا ایک شخص ایوب بن نُہیک معروف علماء رجال ابوزرعہ اور ابو حاتم کے نزدیک منکرالحدیث ہے۔اور ایسی ضعیف روایات،صحیح احادیث کی مقابل نہیں ہوسکتیں۔[2] الغرض سابقہ تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دورانِ خطبہ دورکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھنے والوں کے دلائل عدم جواز والوں کے دلائل سے زیادہ قوی ہیں،لہٰذا دورانِ خطبہ مسجد میں پہنچنے والے شخص کو چاہیئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں’’ تحیۃالمسجد ‘‘پڑھ لے۔ فٹح الملہم شرح صحیح مسلم میں علّا مہ شبیر احمد عثمانی کا یہ کہنا: ﴿وَالإِْ نْصَافُ أَنَّ الصَّدْرَلَمْ یَنْشَرِحْ لِتَرْجِیْحِ أَ حَدِ الْجَانِبَیْنِ إِلٰی الْآنِ﴾ ٓانصاف کی بات یہ ہے کہ اب تک کسی جانب کے راجح ہونے پر ہمارا شرحِ صدر نہیں ہوا۔ شائد مراجع کی قلّت کی وجہ سے ہو،جسک ا اندازہ ان کے الفاظ: ﴿وَلَعَلَّ اللّٰہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا﴾ شائد اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں کبھی شرح صدر فرمادے۔ سے ہوتا ہے۔[3] لہٰذا انشراحِ صدر کیلئے اب درج ذیل مراجع ملاحظہ فرمائیں۔[4]
Flag Counter