Maktaba Wahhabi

24 - 373
واضح رہے کہ حکمی نجاست تب ختم ہوتی ہے جب کوئی انسان پانی کے استعمال کے ساتھ نیت کو بھی شامل کر لے۔اگر حدث اکبر یعنی غسل واجب ہے تو پورے بدن پر پانی استعمال کرے اور اگر حدث اصغر ہے تو چار اعضاء (چہرہ ہاتھ ،سر اور پاؤں )پر پانی استعمال کرے۔ اگر پانی نہ ہو یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال سے عاجز ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرے۔جس کی تفصیل آگے بیان ہو گی۔"ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس مقام پر ہمارا مقصد پانی اور اس کی صفات بیان کرنا ہے اور بتانا ہے کہ کس قسم کے پانی سے طہارت حاصل ہو سکتی ہے اور کس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا" "اور ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی اتارا۔"[1] مزید فرمایا: "وَيُنَـزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ" "اور آسمان سے تم پر بارش برسا رہاتھا تاکہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کردے۔"[2] طہور وہ پانی ہے جو خود پاک ہواور دوسری چیز کو بھی پاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ اپنی قدرتی صفات کا حامل ہو۔ خواہ آسمان کا پانی ہو، جیسے بارش، برف اور اولے ،یا زمین پر جاری ہو۔ جیسے دریا چشمے کنویں اور سمندرکا پانی یا قطروں کی صورت میں ہو ،جیسے شبنم وغیرہ ۔یہ پانی کی ایسی انواع ہیں جن سے حدث و نجاست زائل ہو جاتی ہیں اور طہارت حاصل ہوتی ہے۔اگر ایسے پانی میں نجاست شامل ہو جانے کی وجہ سے تبدیلی رونما ہو جائےتو اس سے بالا اجماع طہارت حاصل نہ ہو گی، البتہ اگر اس قسم کے صاف پانی میں کوئی پاک چیز شامل ہو جائے اور اس کی تین صفات (بو ذائقہ اور رنگت ) میں سے کوئی صفت تبدیل ہو جائے لیکن پانی پر اس کا غلبہ نہ ہو تو اس کے بارے میں اہل علم کی دو رائے ہیں۔ صحیح رائے یہی ہے کہ ایسے پانی سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"اگر قلیل یا کثیر مقدار میں کسی پاک چیز کی ملاوٹ سے پانی میں تغیر واقع ہو جائے، مثلاً:اشنان، صابن ،بیری کے پتے، خطمی مٹی یا آٹے وغیرہ کی ملاوٹ ہو جائے یا کسی ایسے برتن میں پانی رکھ دیا گیا ہو جس میں بیری کے پتوں یا خطمی مٹی وغیرہ کے اثرات ہوں اوروقت گزرنے کے ساتھ پانی میں رنگت کی تبدیلی رونما ہو جائے اور اس پر پانی کا اطلاق بھی ہوتا ہو تو ایسے پانی سے متعلق علماء کے دو قول ہیں۔[3]
Flag Counter