Maktaba Wahhabi

225 - 373
شریعت بھی وصیت کرتے رہتے ہیں۔خطبے میں اطاعت واتباع کی رغبت دلائی جائے،معصیت سے ڈرایا جائے،اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا جائے اور اس کے انعامات کا تذکرہ کیا جائے۔" آگے چل کر شیخ موصوف فرماتے ہیں:"خطبہ میں اس قدر اختصار بھی نہ ہوکہ اصل مقصد فوت ہوجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں،آواز بلند ہوجاتی،غصہ وجوش بڑھ جاتا اور یوں لگتا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے لشکر سے ڈرارہے ہیں جو صبح یا شام حملہ کرنے والا ہے۔"[1] (1)فقہائےکرام نے بیان کیا ہے کہ جمعے کے دونوں خطبے منبر پر کھڑےہوکردینے مسنون ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیاکرتے تھے،اس میں شاید حکمت یہ ہے کہ جب سامع خطیب کو سامنے منبر پر دیکھ رہاہوتو اس طریقے سےبات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے اور موثر بھی ہوجاتی ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ منبر کے استعمال پر علماء کااجماع ہے۔ (2)۔مسنون یہ ہےکہ جب امام منبر پر لوگوں کی طرف ہوتو انھیں السلام علیکم کہے،کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "أن النبي صلى اللّٰهُ عليه وسلم كان إذا صعد المنبر سلّم" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر چڑھتے تو(حاضرین کو) سلام کہتے۔"[2] (3)۔جب تک مؤذن اذان سے فارغ نہ ہوتب تک خطیب منبرپر بیٹھا رہے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: "كَانَ يَجْلِسُ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتَّى يَفْرغَ الْمُؤَذِّنُ - ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کے فارغ ہونے تک منبر پر بیٹھے رہتے،پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ شروع کر دیتے۔"[3] (4)۔مسنون یہ ہے کہ خطیب دوخطبوں کے درمیان(تھوڑی دیر) بیٹھ کر فرق کرے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: "ان رسول اللّٰه صلى اللّٰهُ عليه وسلم كَانَ يخطب خطبتين وهو قائم و كَانَ يفصل بينهما بجلوس"
Flag Counter