Maktaba Wahhabi

192 - 373
"صَلَّى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ، فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ، فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ، فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا" "ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف کی حالت میں گھر میں بیٹھ کر نماز شروع کی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پیچھے نماز میں کھڑے تھے تو آپ نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا:امام اقتدا کی خاطر بنایا جاتا ہے، جب وہ رکوع کرے تب تم رکوع کرو۔ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھو۔"[1] اس کی وجہ یہ ہے کہ مقرر کردہ امام کو آگے کرنا یہ اس کا حق ہے جو اسے ملنا چاہیے ۔ اگر مقتدی اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کریں یا کچھ کھڑے ہو ں اور کچھ بیٹھے ہوئے ہوں تو صحیح قول کے مطابق ان کی نماز درست ہو گی ،البتہ اگر امام کسی کو اپنا نائب بنالے جو انھیں کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور اس سے فقہاء کے اختلاف سے بھی نکل جائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی امامت کے لیے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔[2] الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں صورتوں کا جواز ثابت ہے۔ جو شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کے ساتھ اس کا وضو قائم نہیں رہتا ،مثلاً:اسے سلسل البول (پیشاب کے قطرے نکلنے)یا ہوا کے خارج ہونے کا مرض لاحق ہو تو اس کی امامت درست نہیں کیونکہ اس کی نماز میں تندرست کی نسبت خلل ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ ایسا شخص طہارت کے منافی نجاست کے باوجود نماز ادا کر رہا ہے اس کی نماز اس کی مجبوری کی وجہ سے درست ہے، البتہ اگر اس کے مقتدی بھی ایسے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں تب کوئی حرج نہیں کیونکہ بیماری کی وجہ سے عذر میں سب برابر ہیں۔"[3] اگر کسی نے ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کی بے وضو تھا یا اس کے بدن یا کپڑے یا جائے نماز پر نجاست تھی اور دونوں کو نماز سے فارغ ہونے تک اس کی خبر نہ ہوئی تو مقتدی کی نماز درست ہوگی۔جب کہ امام کی نہیں کیونکہ
Flag Counter