طلب وہ محلات تھے جو محفوظ اور مأمون تھے اور جس کے سامنے پردے حائل ہوتے ہیں۔ انھیں حکومت و سطوت کی تڑپ تھی، ملک و سلطنت کا لالچ تھا۔ درحقیقت وہ طالبِ دنیا تھے، طالبِ دین نہیں۔ کیا حق کے خلاف خروج کرنے والے اس قابل تھے کہ وہ عمار رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کا انکار کر دیں۔ اور عمار بھی وہ کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز پہچان کر فرماتے تھے: ’’اس پاک باز انسان کو خوش آمدید، انھیں آنے دو۔‘‘ وہ عمار رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے جس کے بارے میں جو کچھ کہنا چاہتی ہوں کہتی ہوں سوائے عمار رضی اللہ عنہ کے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’عمار قدموں کے تلووں تک ایمان سے بھرے ہوئے ہیں۔‘‘ [1] سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے عمار رضی اللہ عنہ سے بغض کیا اللہ اس سے بغض رکھے گا۔‘‘ خالد فرماتے ہیں: میں اس دن سے عمار رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہوں۔ عمار رضی اللہ عنہ نے صفین کے دن آواز دی کہ میرے پاس دودھ لاؤ‘ میں دودھ پینا چاہتا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’تو اس دنیا میں جو آخری مشروب پیے گا وہ دودھ ہو گا۔‘‘ [2] انھیں دودھ پیش کیا گیا تو انھوں نے دودھ پیا، پھر آگے بڑھے اور یہ اشعار کہنے |