اور عمار رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے: ’’ہاشم آگے بڑھو۔ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے اور موت نیزے کی دھار کے نیچے ہے۔ آسمان کے دروازے کھل چکے، حوریں بناؤ سنگھار کیے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت سے جا ملو۔‘‘ [1] سیدنا عمار رضی اللہ عنہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس جا پہنچے اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے عمرو! تم نے ایک شہر کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالا۔ یہ بڑی ہلاکت والا سودا ہے۔‘‘ [2]عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’نہیں، میں عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ چاہتا ہوں۔‘‘ عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مجھے تمھارے بارے میں جو کچھ معلوم ہے اس کے مطابق میں گواہی دیتا ہوں کہ تمھارا موجودہ فعل اللہ کی رضا کے لیے نہیں ہے۔ اگر تم آج قتل نہ ہوئے تو کل بہرحال مرنا ہی ہے۔ خوب غور و فکر کر لو کہ کل جب لوگوں کو ان کی نیت کے مطابق بدلہ دیا جائے گا تو تمھاری کیا نیت سامنے آئے گی۔ اے عمرو! جس راہ پر تم چل پڑے ہو یہ کوئی نیکی یا تقوی والی راہ نہیں ہے۔‘‘ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے اس باغی گروہ کو جس نے مسلمانوں کی جمعیت کو پارا پارا کر دیا تھا، بے نقاب کیا اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے اسے ظاہر کر دیا۔ اور اپنے متبعین کو وہ جو دھوکا دے رہے تھے اسے عیاں کیا۔ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ نہیں چاہتے تھے، نہ وہ اللہ کے لیے مسلح ہو کر نکلے تھے بلکہ یہ تو اس شخص کے خلاف خروج کیے ہوئے تھے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ میرے نزدیک وہی مقام رکھتے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک ہارون علیہ السلام کا تھا۔ ان کا اصل مقصد دنیاوی مفاد تھا۔ اس مال کا لالچ تھا جو انسان کو جرائم پر آمادہ کرتا ہے ان کی |