چاہتی ہے۔ اللہ کی قسم! وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ نہیں چاہتے۔ اصل میں انھوں نے دنیا کی لذت چکھ لی ہے اور یہ لذت انھیں بہت اچھی لگ رہی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہماری دنیاوی خواہشات کے راستے میں حق حائل ہو جائے گا، ان لوگوں نے کوئی ایسا کارنامہ بھی انجام نہیں دیا کہ جس کے عوض وہ لوگوں کی اطاعت کے حق دار ہوں یا وہ ان کے حاکم بنیں، پس انھوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں کو دھوکا دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے امام کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے تا کہ وہ بادشاہ اور جابر بن سکیں، چنانچہ وہ اس حد تک پہنچ گئے جسے تم دیکھ رہے ہو۔ اگر ان کے پاس یہ ایشو نہ ہوتا تو دو آدمی بھی ان کے ساتھ نہ ہوتے۔ اے اللہ! تو ہماری مدد کر اور تو نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے اور اگر تو معاملہ ان کے سپرد کرنا چاہتا ہے تو ان کا ہر عمل لکھ لے جو وہ تیرے بندوں پر ظلم کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ جماعت کو ساتھ لے کر چل پڑے، وہ جس وادی سے بھی گزرتے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو حضرات بھی وہاں ہوتے وہ آپ کے ساتھ ہو لیتے۔ [1] سیدنا عمار رضی اللہ عنہ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کے پاس آئے۔ وہ لمبے قد والا انسان تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے علم بردار اور نابینا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اے ہاشم! کیا تم نابینا ہو؟ اس نابینا میں کوئی بھلائی نہیں جو لڑائی نہیں کرتا۔ ہاشم سوار ہو جاؤ، چنانچہ وہ سوار ہوا اور عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل پڑا، وہ کہہ رہا تھا: أعور یبغي أھلہ محلا قد عالج الحیاۃ حتی ملا لابد أن یفل أو لا یفلا یتُلُّھُم بذي الکعوب تلا [2] |