سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ ’’مجھے پتا تھا کہ آپ میں عامل بننے کی صفات پوری نہیں ہیں۔‘‘ اس جملے میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے لیے کوئی عیب نہیں ہے۔ آپ صاحب عقل و شعور اور قلب سلیم کے مالک تھے جس نے انھیں اسلام کی طرف راغب کیا۔ آپ علم و حکمت سے پر تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گزر چکا ہے۔ آپ ماہر شہسوار تھے۔ جنگ صفین کے موقع پر آپ لوگوں کے پاس آئے اور گویا ہوئے: ’’اے اللہ! تو جانتا ہے کہ اگر مجھے پتا چل جائے کہ تیری رضا اس میں ہے کہ میں اس سمندر میں کود جاؤں تو میں کود جاتا۔ اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ تیری رضا اس میں ہے کہ میں اپنی اس تلوار کے ذریعے سے اپنی جان ختم کر دوں تو میں یہ بھی کر گزرتا۔ آج میں کوئی ایسا عمل نہیں جانتا جو مجھے ان فاسق لوگوں کے خلاف جہاد سے بڑھ کر افضل معلوم ہو۔ اور اگر مجھے اس سے بھی بڑھ کر کوئی عمل معلوم ہو جائے تو میں وہی عمل کرنے لگ جاؤں گا۔ اللہ کی قسم! میں ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمھیں ایسی ضرب لگائیں گے کہ باطل لوگ بھی اس پر پریشان ہو جائیں گے۔ اور اللہ کی قسم! اگر وہ ہمیں مار مار کر لہولہان بھی کر ڈالیں تب بھی مجھے یقین ہے کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پر ہیں۔‘‘ [1] پھر فرمایا: ’’کون ہے جو اپنے رب تعالیٰ کی رضا چاہتا ہے اور اپنے مال و اولاد کی طرف واپس نہیں جانا چاہتا؟‘‘ یہ سن کر ایک جماعت آپ کے پاس جمع ہو گئی۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ہمارے ساتھ مل کر اس قوم کی طرف چلو جو عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ |