سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کے ساتھ ایک عرصہ تک رہے۔ اس عرصے میں آپ ان کے اسی طرح فیصلے کرتے اور معاملات نمٹاتے رہے جس طرح اللہ اور اس کے رسول چاہتے تھے۔ آپ ایک زاہد، متقی اور اپنی رعایا سے محبت کرنے والے حاکم تھے۔ آپ کی طبیعت میں دیگر حکمرانوں کی طرح سختی اور بد خلقی نہ تھی۔ اپنا کام خود کرتے تھے، اپنا بوجھ بھی خود ہی اٹھاتے تھے۔ ابن ابی ہدیل کہتے ہیں: ’’میں نے عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے ایک درہم میں کھیرا خریدا، اسے ایک رسی سے باندھا، پھر اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔ اس وقت آپ کوفہ کے امیر تھے۔[1] لیکن یہ عمدہ سیرت اہل کوفہ کو پسند نہ آئی۔ انھوں نے ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ امیر ہونے کے لائق نہیں، سیاست کو یہ نہیں جانتے اور انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ انھیں کس چیز کا مسؤل اور عامل بنایا گیا ہے، چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انھیں امارت سے ہٹا دیا اور پوچھا: ’’میرا تمھیں معزول کرنا برا تو نہیں لگا؟ انھوں نے جواب دیا: ’’جب مجھے امیر بنایا گیا تھا تو مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی لیکن یوں معزول کیا جانا مجھے اچھا نہیں لگا۔‘‘ امیر المومنین نے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہے کہ آپ عامل ہونے کے لائق نہیں ہیں لیکن میں نے تاویل کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ﴾ ’’اور ہم چاہتے ہیں کہ زمین میں کمزور سمجھے جانے والوں پر احسان کریں اور ہم انھیں امام اور وارث بنائیں۔‘‘ [2] |