یمامہ کا معرکہ بھی ہے۔ ان حالات میں عمار رضی اللہ عنہ کہاں تھے؟ کیا اس نازک گھڑی میں وہ غائب تھے؟ نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ایک بلند ٹیلے پر باغ کے دروازے کے سامنے دلیرانہ لڑ رہے تھے اور مجاہدین اسلام کو پکار رہے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے یمامہ کے دن عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ایک چٹان پر کھڑے ہیں اور زور زور سے پکار رہے ہیں: ’’اے مسلمانو! کیا جنت سے دور بھاگ رہے ہو؟ میں عمار بن یاسر ہوں، میری طرف آؤ۔‘‘ میں دیکھ رہا تھا کہ ان کا کان کٹ چکا تھا، خون تیزی سے بہہ رہا تھا اور وہ دشمن کے خلاف بڑی زور دار لڑائی لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں نے نصرت الٰہی کے ساتھ جزیرہ نمائے عرب کو پھر اپنے قبضے میں لے لیا۔ پھر خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی فوت ہو گئے۔ ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ انھوں نے ایک اللہ کی عبادت اور دین کی نشرو اشاعت کی غرض سے کچھ لوگوں کو فارس اور روم بھیجا۔ صحابۂ کرام میں سے کچھ لوگوں کو ان لشکروں کا کمانڈر بنایا، کچھ کو مشاورت کے لیے اپنے ساتھ رکھا، کچھ کو صوبوں کا گورنر اور عاملین زکاۃ بنایا جبکہ کچھ حضرات کو دعوت دین اور مسائل شرعیہ سکھانے کے لیے منتخب کیا۔ آپ نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو کوفے کا گورنر بنایا۔ اور ان (اہل کوفہ) کو ایک خط لکھا: ’’اما بعد! میں نے عمار بن یاسررضی اللہ عنہما کو تمھارا امیر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہا کو معلم اور وزیر بنا کر بھیجا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہا کو بیت المال کا مسؤل بھی بنایا ہے۔ یہ دونوں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جلیل القدر صحابی ہیں اور اہل بدر میں سے ہیں۔ تم ان دونوں بزرگوں کی بات سنو اور اطاعت کرو۔‘‘ [1] |