’’اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش سے نہیں بولتے مگر وہ وحی ہوتی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔‘‘ [1] سیدنا عمار رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہتے تھے۔ غزوۂ بدر میں وہ ایک زبردست شکاری بنے ہوئے تھے، جو مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا چاہتا تھا وہ اس کی کھوپڑی کا شکار کر رہے تھے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق بھی کھودی تھی۔ بیعت رضوان میں آگے بڑھ کر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی تھی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ انھوں نے یاد کر لیے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے داعی بنے تھے۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی خبر دی تھی تو ان کے آنسو تھمتے نہ تھے۔ اسی دن سے انھوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے کی ٹھان لی تھی۔ آپ اپنے رب سے شہادت کی دعا کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں بڑی عجیب و غریب سازشیں اور فتنے شروع ہو گئے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی نبوت کے دعوے شروع کر دیے اور بہت سارے لوگ مرتد ہو گئے اور بعض لوگوں نے زکاۃ کا انکار کر دیا۔ ان سازشی اور مرتد گروہوں کے خلاف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے انھوں نے ان کذاب مدعیان نبوت کے خلاف ایک لشکر تیار کیا۔ انھی معرکوں میں ایک |