Maktaba Wahhabi

71 - 269
پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف گیا، وہ بندھا ہوا تھا، اس پر بیٹھا اور اسے کچوکا مارا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اللہ کی قسم! جب اس نے اپنا اونٹ کھولا تو وہ ٹھیک میرے نشانے پر تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھے یہ حکم نہ ہوتا کہ کسی سے کوئی تعرض نہیں کرنا تو میں اسے تیر مار کر ہلاک کر دیتا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کی چادر میں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو مجھ پر وہ چادر بھی ڈالی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور جب سلام پھیرا تو میں نے آپ کو ساری رپورٹ پیش کر دی۔ [1] سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے اعمال میں اپنے آپ کو قربان کرنے کا جذبہ صاف ظاہر ہے، یعنی بلا تردد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا اور ہدف تک کامیابی سے پہنچنا۔ انھوں نے دشمن کی خوب خبر لی۔ وہ دشمن کی صفوں میں کھڑے تھے۔ چاہتے تو لشکر کفارکے کمانڈر کو قتل کر سکتے تھے لیکن چونکہ انھیں اس بات کا حکم نہیں تھا، اس لیے سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس تشریف لے آئے، اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اور رضا مندی تھی۔ انھی صفات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہا کا بھائی بنایا۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو جن بڑے فضیلت والے کاموں پر لگایا ان میں سے ایک مسجد نبوی کی تعمیر تھی۔ اس عمل جلیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی شرکت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کام بھی کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ یہ شعر بھی پڑھ رہے تھے:
Flag Counter