بیان کیا ہے: ﴿ إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللّٰهِ الظُّنُونَا،هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا﴾ ’’جب دشمن تم پر تمھارے اوپر (کی طرف) سے اورتمھارے نیچے (کی طرف) سے چڑھ آئے ، اورجب آنکھیں (خوف و ہراس کی و جہ سے اصل جگہ سے) ہٹ گئیں، اور کلیجے حلقوں کو پہنچ گئے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ وہاں مومن آزمائے گئے اور شدت سے ہلا مارے گئے۔‘‘ [1] سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا: ’’حذیفہ! جاؤ اور دشمن قوم میں ضم ہو جاؤ اور جائزہ لو کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن کسی سے کچھ نہ کہنا۔‘‘ وہ فرماتے ہیں: میں چل پڑا اور دشمن کی صفوں میں گھس گیا۔ اس وقت تیز ہوا چل رہی تھی اور اللہ کے لشکر اپنا کام دکھا رہے تھے۔ کوئی ہنڈیا چولہے پر ٹکتی، نہ آگ بھڑکتی تھی، نہ کوئی خیمہ ٹک رہا تھا۔ ابو سفیان کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے جماعت قریش! ہر بندہ اپنے ساتھی کا تعارف حاصل کر ے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے فوراً اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا:آپ کون ہیں؟ اس نے کہا: فلاں بن فلاں۔ پھر ابو سفیان نے کہا: اے گروہ قریش! اللہ کی قسم! تم نے کسی اچھی جگہ پڑاؤ نہیں کیا۔ سواریاں ہلاک ہو گئی ہیں، بنو قریظہ نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور تم دیکھ رہے ہو کہ کس قدر تیز ہوا چل رہی ہے۔ نہ دیگیں اپنی جگہ پر رہتی ہیں اور نہ آگ جلتی ہے۔ خیمے بھی اڑتے جا رہے ہیں، لہٰذا یہاں سے کوچ کرو، میں بھی کوچ کر رہا ہوں۔ [2] |