Maktaba Wahhabi

69 - 269
أیھا المبعوث فینا جئت بالأمر المطاع جئت شرفت المدینۃ مرحباً یا خیر داع ’’چودھویں کا چاند ہم پر مدینے کے اطراف سے طلوع ہوا۔ جب تک اللہ کو پکارنے والا پکارے، ہم پر اللہ کا شکر واجب ہے۔ اے مبعوث کیے گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ واجب الاتباع دین لے کر آئے۔ اے عمدہ تعلیم دینے والے خوش آمدید! آپ کے آنے سے مدینہ کو عزت و شرف ملا۔‘‘ [1] سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی توقع سے بڑھ کر نوازا۔ اور ان کی ہر تمنا کو پورا کیا ہے۔ کفر سے ہٹا کر اسلام کی دولت سے نوازا۔ بنو مخزوم کی غلامی سے نکال کر اللہ نے اپنی غلامی عطا کر دی۔ بے گھر تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر بھی عطا کر دیا۔ اکیلا تھا، کوئی دوست نہیں تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بہت سی صفات اور نظریات میں عمار رضی اللہ عنہ کے موافق تھے۔ اگر عمار رضی اللہ عنہ علم کی دولت سے مالا مال تھے تو حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان اور منافقین کو پہچاننے والے تھے۔ دونوں اسلامی بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ایک حکم پر لبیک کہنے والے تھے۔ اگر عمار رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے بڑے بڑے شیطانوں کو پچھاڑ دیتے تھے تو حذیفہ رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر لبیک کہتے اور دشمن کی خبریں لے آتے تھے حتی کہ ایک خوفناک موقعے پر ، یعنی غزوۂ خندق کے وقت جب مسلمان شدید مصیبت و پریشانی سے دوچار ہوئے جسے قرآن نے ان الفاظ میں
Flag Counter