لگاتار وہاں جانے لگے۔ انھیں حبشہ میں نجاشی کے پڑوس میں امن اور سکون حاصل ہوا۔ اور وہ اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کرنے پر قادر ہوئے۔ لیکن عمار رضی اللہ عنہ ہجرت نہ کر سکے۔ مکہ والے قریشی ان کی راہ میں حائل ہو گئے اور یوں وہ ایک مدت تک مکہ میں ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے۔ تا ہم دوسری ہجرت حبشہ کے وقت انھیں بھی ہجرت کا موقع مل گیا۔ اور حبشہ کے بادشاہ کی سرپرستی میں انھیں سکھ کا سانس نصیب ہوا لیکن وہ اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی برداشت نہ کر سکے۔ اس دوران قریش نے ایک چال چلی اوریہ بات مشہور کر دی کہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کر لیا ہے۔ یہ بات جب مہاجرین حبشہ نے سنی تو وہ دوڑے دوڑے مکہ آ گئے۔ انھی میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ وہ ابھی مکہ میں تھوڑا ہی عرصہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ عمار رضی اللہ عنہ بھی دیگر صحابہ کے ساتھ مدینہ ہجرت کر گئے۔ مدینہ پہنچ کر بھی آپ کی نظریں مکہ کے راستے پر جمی رہتی تھیں کہ کب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں۔ وہ روزانہ مدینہ کے داخلی راستوں پر جاتے اور گزرنے والے قافلوں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حال پوچھتے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس جیسا دن پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ مدینہ کے مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے اور بچے مدینہ سے باہر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا استقبال کر رہے تھے اوریہ میٹھا ترانہ گا رہے تھے: طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وجب الشکر علینا ما دعا للّٰہ داع |