Maktaba Wahhabi

67 - 269
’’صبر کرو، اے اللہ! تو آل یاسر کو معاف فرما۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’اے آل یاسر! خوش ہو جاؤ، بے شک تمھارا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘ [1] عذاب کی یہی حالت برقرار رہتی ہے۔ ظالم عذاب پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ اس دوران میں ابو جہل سمیہ رضی اللہ عنہا کے قریب سے گزرتا ہے۔ ان کے سینے پر لات مارتا ہے۔ اور وہ کہتی ہیں: ’’اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔‘‘ ابو جہل بپھرے ہوئے بیل کی طرح باؤلا ہو جاتا ہے اور جب بھی سمیہ رضی اللہ عنہا کے منہ سے یہ کلمہ سنتا ہے تو انھیں پیٹنے لگ جاتا ہے تا کہ وہ یہ کلمہ نہ کہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) برا بھلا کہے لیکن وہ رکتی نہیں بلکہ اپنا محبوب ترین کلمہ أحد، أحد، اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے، دہرائے جاتی ہیں۔ ابو جہل سے یہ معاملہ برداشت نہ ہوا۔ اس نے اپنا نیزہ نکالا، شیطان نے اس کی مدد کی، ظالم نے سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کے سینے میں ایسا زور دار نیزہ مارا کہ وہ آر پار ہو گیا جس سے ان کی موت واقع ہو گئی اور یوں انھوں نے اسلام میں پہلی شہید خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ [2] اس واقعے کے بعد کیا قریش کو ترس آیا اور کیا وہ اپنے مظالم سے باز آئے؟ حقیقت یہ ہے کہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو قتل کرنے کے بعد وہ گناہ پر اور زیادہ مصر ہو گئے اور جو لوگ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے انھیں اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔ اس تمام صورت حال سے رحمتِ عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید دکھ ہوتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں کچھ نہ تھا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں حبشہ کو ہجرت کرنے کا حکم دیتے ہیں، لہٰذا اہل ایمان
Flag Counter