گئی تھی۔ خندق کی کھدائی کے بارے میں سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم خندق کھودنے لگے یہاں تک کہ ہم نیچے تر مٹی تک پہنچ گئے۔ اسی دوران اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ خندق کے درمیان میں ایک سفید پتھر (مروہ) ظاہر ہو گیا۔ ہمارے بیلچے ٹوٹ گئے اور ہم مشقت میں پڑ گئے۔ میں نے سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر انھیں اس بارے میں بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ترکی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ سلمان رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! ایک پتھر آڑے آگیا ہے، وہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ ہمارے تو بیلچے بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ اب یا تو ہم وہاں سے خندق کا رخ موڑ لیں یا پھر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو کیونکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سلمان! مجھے اپنی کدال دکھاؤ۔‘‘ [1] پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم خندق کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خندق میں اترے اور پتھر پر ایک زور دار ضرب لگائی جس سے بجلی چمکی اور وادی روشن ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نعرۂ تکبیر بلند کیا، ہم نے بھی اللہ اکبر کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ضرب لگائی جس سے تاریک وادی پھر روشن ہو گئی۔ آپ نے پھر تکبیر بلند کی اور ہم نے بھی آپ کا ساتھ دیا۔ آپ نے تیسری ضرب لگائی جس سے پتھر ٹوٹ گیا اور پہلے کی طرح روشنی پھیل گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے باہر تشریف لائے اور سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے۔ سلمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آج میں نے ایسی چیز دیکھی ہے جو پہلے کبھی نہیں |