ان کو کھینچتے ہوئے مسجد میں لے آئے تاکہ اس حدیث کی لوگوں سے تصدیق کر سکیں۔ مسجد میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم علمی مجلسیں لگائے بیٹھے تھے۔ ان میں ابوذر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تمھیں رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے کس کس نے وہ حدیث اللہ کے رسول سے سنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو اپنا گھر بنانے کا حکم دیا تھا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ حدیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ ایک دوسرا بندہ کھڑا ہوا، اس نے کہا: میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ تیسرے نے کہا: میں نے بھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث رسول کی تصدیق کر لی توفوراً اپنا سر جھکالیا اور کہا: اے عباس! اب میں آپ کے گھر کے متعلق بات نہیں کروں گا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر اس قدر زبردست مؤدب عمل دیکھا تو کہنے لگے: میں اپنا گھر مسجد کی توسیع کے لیے وقف کرتا ہوں۔ اگر آپ مجھ سے جھگڑا کرتے تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔ یقیناًعمر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ سے اس وقت تک مکان کے متعلق بات کرتے رہتے جب تک وہ اپنا مکان مسجد کی توسیع کے لیے فروخت نہ کر دیتے لیکن آپ شریعت سے سرِمو انحراف نہیں کرتے تھے۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آجاتی وہیں سر تسلیم خم کر دیتے تھے، پھر عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا کوئی اجتہاد نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اس نص کے سامنیجھک جاتے تھے، اسی و جہ سے عباس رضی اللہ عنہ بھی جھک گئے اور اپنامکان مسجد کی توسیع کے لیے |