Maktaba Wahhabi

258 - 269
عباس رضی اللہ عنہ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ’’میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہوں۔ بوڑھا ہو گیا ہوں اور موت کی پرچھائیوں کو صاف محسوس کر رہا ہوں۔ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ مجھے فائدہ دے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے میرے چچا! اللہ سے اپنی عافیت اور بخشش کا سوال کرتے رہیے، اپنے اعمال اچھے رکھیے، اللہ کے امر کے معاملے میں، میں آپ کے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔‘‘ تقدیر کا فیصلہ صادر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا وقت قریب آ پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن بیمار رہنے کے بعد اپنے خا لقِ حقیقی سے جاملے۔ عباس رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا شدید صدمہ پہنچا، وہ غمزدہ رہنے لگے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میںعباس رضی اللہ عنہ کو لوگ بے حد عزت و احترام سے دیکھتے تھے۔ وہ لوگوں میں معززترین شخص کی حیثیت سے زندہ رہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس راستے سے مسجد کی طرف جاتے تھے اسی راستے پر عباس رضی اللہ عنہ کا گھر تھا۔ ان کے گھر کی چھت پر ایک پرنالہ تھا، اس کا پانی باہر گلی میں گرتا تھا۔ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف جا رہے تھے، جب آپ(رضی اللہ عنہ ) سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کے قریب پہنچے تو اس پرنالے سے پانی گرا جس سے آپ کے کپڑے بھیگ گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا، انھوں نے اس پرنالے کو اکھاڑنے کا حکم دے دیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گھر واپس گئے، کپڑے تبدیل کیے، مسجد پہنچے اور لوگوں کو نمازپڑھائی۔ عباس رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے عمر! اللہ کی قسم! یہ پرنالہ اللہ کے
Flag Counter