Maktaba Wahhabi

256 - 269
یمامہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح سے نوازا تھا، اس سے مسلمانوں کی معیشت مضبوط ہو گئی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نوفل بن حارث رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ آپ کی تاریخ ہجرت کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن سب مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی نوفل بن حارث کو مدینہ کے پڑوس میں بطور جاگیر ایک جگہ مرحمت فرمائی تھی۔ مدینہ میں ایک شخص نے عباس رضی اللہ عنہ کے آباء میں سے کسی کو بُرا بھلا کہا، وہ آدمی عباس رضی اللہ عنہ کو ایذا دینے کے لیے بار بار وہی بات دہرا رہا تھا۔ عباس رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا۔ انھوں نے اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ اس شخص نے دہائی دی تو اس کی ساری قوم بدلہ لینے کے لیے جمع ہو گئی۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اسے ضرور تھپڑ ماریں گے جس طرح اس نے ہمارے ساتھی کو تھپڑ مارا ہے۔ وہ مسلح ہو گئے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ’’اے لوگو! تمھیں معلوم ہے کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: آپ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عباس مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ تم مُردوں کو گالی مت دو کیونکہ اس سے زندوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘ [1] قوم آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم آپ کے غصے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے اللہ سے بخشش طلب کیجیے
Flag Counter