سے ملے، وہ اسے قتل نہ کرے اور تم میں سے جس کا سامنا بھی عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے ہو تو وہ انھیں قتل نہ کرے کیونکہ ان کو اس جنگ میں زبردستی شریک کیا گیا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے یہ باتیں کیں تو کسی نے بھی آپ کی ان باتوں پر اعتراض نہیں کیا۔ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے بچوں، بیٹوں، بھائیوں اور اپنے کنبے کے لوگوں کو تو قتل کریں اور عباس رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیں؟ اللہ کی قسم! اگر میرا سامنا عباس رضی اللہ عنہ سے ہوا تومیں اسے ضرور قتل کروں گا۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے ابو حفص! کیا رسول اللہ کے چچا کے چہرے پر تلوار ماری جائے گی؟‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ اللہ کی قسم! یہ منافق ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی بات کی تائید و موافقت نہ کی اور انھیں اس کام سے روکے رکھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اصلاح کا موقع دیتے تھے کہ شاید یہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہو جائیں اور اپنی خطاؤں کا کفارہ ادا کریں۔ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بعد میں اس بات پر سخت شرمندہ ہوئے۔ وہ ہمیشہ اس بات کو دہراتے اور پریشان ہوجاتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے: ’’اللہ کی قسم! میں اپنی اس بات کی و جہ سے ہمیشہ خوف محسوس کرتا ہوں مگر مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میری شہادت کے ذریعے اس غلطی کوبھی مٹا دے گا۔‘‘ [2] اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کیا اور ان کے مطالبے کو پورا کر دیا۔ آپ جنگ |