جہاد میں کود کر جان کی بازی لگا دیں، یہی وہ بات تھی جس پر عباس رضی اللہ عنہ مطمئن ہوئے تھے۔ زندگی کی خبر رکھنے والا، لوگوں کے جذبات اور ان کی پہچان رکھنے والا شخص ان کی صرف محبت والی بات پر اکتفا نہیں کرسکتا بلکہ وہ ان سے جنگ کے طور طریقے پوچھے گا تاکہ اس سے ان کی نیتوں کی تصدیق ہو سکے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے بھی ان سبھی امور پر عمل کیا۔ تب جا کر ان کا دل انصار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین بیعت مکمل ہونے پر نرم ہوا۔ اللہ نے جو چاہا پورا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ کیا عباس رضی اللہ عنہ ہجرت کے وقت کو جانتے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کوچ کرنے کا معین وقت بتادیا تھا؟ ہم اپنے سامنے ایسے دلائل نہیں پاتے جو اس بات کو ثابت کر سکیں۔ عباس رضی اللہ عنہ مکہ ہی میں رہے۔ ان کے پاس ان لوگوں کی خبریں پہنچتی رہتی تھیں جنھوں نے دین کی خاطر مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ سردارانِ قریش کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھتے تھے اور ان کی خبروں اور منصوبوں سے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ مکاتیب آگاہ کرتے رہتے تھے، حتیٰ کہ بدر کا معرکہ سج گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ قریش عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو بھی اپنے ساتھ بدر کے میدان میں لے آئے ہیں تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں، حالانکہ عباس رضی اللہ عنہ اس لڑائی کے خلاف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم کے کچھ لوگوں کو زبردستی اپنے ساتھ لایا گیا ہے وہ ہمارے ساتھ لڑائی کو اچھا خیال نہیں کرتے جو تم میں سے بنو ہاشم میں سے کسی شخص |