Maktaba Wahhabi

233 - 269
ہمارے پاس ہے۔ اب تیرا جو ارادہ ہے وہ بتا دے۔ تیرے اندر ایسی کوئی بات نہیں ہے جسے ہم قبول کر سکیں۔ تیرے تین کاموں اور باتوں میں سے ہم ایک بات قبول کریں گے، اب جو تو چاہتا ہے، وہ پسند کر لے۔ باطل کے لیے اپنے آپ کو حریص نہ بنا۔ اسی کا مجھے میرے امیر نے حکم دیا ہے اور میرے امیر کو یہی تاکید ہمارے امیر المومنین نے کی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ لیا تھا۔[1] جو شخص یہ تصور کرتا ہے کہ ان لوگوں کو بادیہ نشینی اور طبعی حالات کی سختیوں نے گھروں سے نکالا ہے اور انھوں نے جاہلیت والی زندگی بسر کی ہے، اس لیے یہ لوگ دلی رازوں کی معرفت اور جنگ کی دھوکہ بازی سے کوسوں دور ہیں تو یہ بھی نفسیاتی جنگ کا ایک انوکھا حربہ تھا جسے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے جاری کیا۔ انھوں نے مقوقس کی ہر مخالفانہ بات کا رد کیا اور اس کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ وہ عبادہ رضی اللہ عنہ کے رعب و دبدبے سے گھبرا گیا اور ان سے مرعوب ہو گیا۔ جب حکومت اور لشکروں کے قائد پریشانی اور ہولناکی کی اس حالت کو پہنچ جائیں تو معرکے ناکام ہو جاتے ہیں اور صلح کے بعد اس کے شہر اور علاقے سلامت و محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن جو ایسی گھبراہٹ والی حالت میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی جنگ میں قدم رکھتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے قاتلوں کو خود دعوت دے رہا ہو۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی سفارتکاری مکمل ہوئی اور وہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا کی طرف واپس آ گئے۔ شاہِ مصر کی نفسیات کی خرابی اور فخر و غرور نے اس کے لشکر کی طاقت گھٹا دی اور مصر کی فتح مسلمانوں کی طرف بڑھنے لگی۔
Flag Counter