عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روم کے ایک بہت بڑے قلعے اور ان لوگوں کے خلاف جو ابھی سرنڈر نہیں ہوئے تھے ایک فیصلہ کن حملے پر غور کر رہے تھے کہ اچانک امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خط آ پہنچا، آپ رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا: اما بعد! ’’مجھے مصرکی فتح کی تاخیر پر تعجب ہوا ہے بلاشبہ تم ان سے کئی سال سے جنگ کر رہے ہو، اس کی و جہ یہی ہے کہ تم بھی دشمن کی طرح دنیا سے محبت کرنے لگے ہو۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کی سچائی اور ارادوں کی پختگی دیکھ کر ہی کسی قوم کی مدد کرتا ہے۔میں نے تمھاری طرف چار آدمیوں کو بھیجا ہے، میرے علم کے مطابق ان میں سے ہر ایک، ایک ہزا رآدمیوں کے قائم مقام ہے۔ لگتا ہے ان کو بھی اسی چیز نے بدل دیا ہے جس نے تم کو بدل ڈالا ہے۔ جب آپ کے پاس میرا یہ خط پہنچے تو لوگوں سے خطاب کرنا اور انھیں دشمن کے خلاف جنگ، صبر اور حُسنِ نیت کے بارے میں ترغیب دلانا اور ان چار اشخاص کو لوگوں کے سامنے کھڑا کرنااور ان کے متعلق بتانا، پھر تمام لوگوں کو حکم دینا کہ ان کا حملہ ان چار آدمیوں کے حملے جیسا ہونا چاہیے۔ اور یہ کام جمعہ کے دن زوال کے وقت ہونا چاہیے کیونکہ اس وقت اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے، اس وقت لوگوں کو چاہیے کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور دشمن کے خلاف مدد کا سوال کریں۔‘‘ کیا عرب اور مسلمانوں کے سپہ سالاروں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ان نصیحتوں پر |