اس کے دین کی نشر و اشاعت اور لوگوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کے لیے جہاد کرتے تھے۔ مقوقس نے مسلمانوں کے سپہ سالار سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ ہماری طرف اپنا ایک نمائندہ بھیجیں تا کہ مذاکرات کے ذریعے ہم ایسی راہ نکال لیں جس میں ہم دونوں کی بھلائی ہو۔عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں چند آدمیوں کادستہ مقوقس کی طرف روانہ کیا اور تنبیہ کی کہ تم میں سے صرف عبادہ بن صامت(رضی اللہ عنہ ) مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بات کریں گے۔ سیاہی مائل گندمی رنگت، روشن دل، مضبوط جسم، بارعب چہرہ، آنکھوں میں ایمانی چمک اور خودداری رکھنے والے یہ خوبصورت نوجوان عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے قد کی لمبائی راویوں نے دس بالشت کے برابر بیان کی ہے۔ جب یہ مختصر سا قافلہ مقوقس کے دربار میں پہنچا تو وہ خوف زدہ ہو گیا اور اس کے اعضاء کپکپانے لگے، وہ کہنے لگا کہ اس سیاہی مائل شخص کو مجھ سے دور لے جاؤ۔ اس کے علاوہ کوئی اور شخص مجھ سے بات کرے۔ عبادہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا: یہ آدمی رائے اور علم کے لحاظ سے ہم سے بہتر ہے۔ اور یہی ہمارا امیر ہے، اس کی بات معتبر ہوتی ہے اور ہم اس کی رائے اور بات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہمارے امیر نے اسے ہمارا قائد مقرر کیا ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس کی رائے اور بات کی مخالفت نہ کریں۔ مقوقس نے کہا: تم اس کالی رنگت والے انسان کو اپنا امیر ماننے پر کس طرح راضی ہو گئے؟ مناسب یہ تھا کہ وہ تمھارے ماتحت ہوتا۔ مقوقس ان لوگوں کو اپنی سوچ کے |