لوگ نہ ہوں۔ انھوں نے امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل کی کیونکہ ان کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہی تعلیم دی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا: ’’عبادہ رضی اللہ عنہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا۔‘‘ [1] مسلمانوں کا اگلا ہدف مصر کو فتح کرنا تھا جس کی بشارت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ اس کی ذمہ داری عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی تو وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہ مصر کی سرزمین پر پہنچے تو وہاں مصریوں اور رومیوں کا بہت بڑا لشکر پورے سازو سامان سے لیس موجودتھا۔عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین کی طرف قاصد بھیجا اور ان سے کمک کا مطالبہ کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے چار ہزار مجاہدین کا لشکر آپ رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے روانہ کیا اور ساتھ ہی ایک خط لکھا کہ اے عمرو! میں تیری طرف چار ہزار جوانوں کا قافلہ روانہ کر رہا ہوں اور ان میں چار آدمی ایسے بھی ہیں کہ جو ایک ایک ہزار کے لشکر کے برابر ہیں۔ [2] عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی ان چار آدمیوں میں سے ایک تھے۔ بادشاہ مقوقس کے جاسوس اور آدمی پھیل چکے تھے اور وہ مسلمانوں کی قوت اور تعداد کی معلومات لے رہے تھے، ان کی نرمی و سختی کو محسوس کر رہے تھے۔ جب وہ جاسوس اپنی رپورٹیں پیش کرنے کے لیے واپس مقوقس کے پاس آئے تو مجاہدین اسلام کی صفات بیان کرنے لگے کہ وہ اپنے دور دراز شہروں اور علاقوں کو چھوڑ کر نکلے تو ایک ہی کلمہ دہراتے تھے، |