کی رات بیعت کی تھی۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے اور مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے اسلامی بھائی ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ بنے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی جانب بھیجا تھا تا کہ وہ وہاں سے مسلمان قیدیوں کو نکال لائیں۔ جب وہ مکہ پہنچے تو عناق نامی عورت جو جاہلیت میں ان کی دوست تھی اس کو پتہ چلا تو وہ ان کے پاس آئی جبکہ مرثد رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے بالکل لاتعلق ہو گئے تھے اور اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہ رہا تھا۔ وہ کہنے لگی: افسوس ہے مرثد! ہم دونوں ایک دوسرے سے جدا کیوں ہیں؟ مرثد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا اب تیرے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رہا۔ میرے دین نے مجھ پر اس کام کو حرام کر دیا ہے۔ آخر یہ کون سی چیز تھی کہ جس نے مرثد رضی اللہ عنہ میں یہ تبدیلی پیدا کر دی کہ وہ دعوت گناہ ملنے پر بھی گناہ کے قریب نہ گئے، حالانکہ جاہلیت میں مرثد اس سے محبت کرتے تھے۔ یہ صرف اللہ کا ڈر اور اسلام کی تعلیمات کا اثر تھا جو مرثد رضی اللہ عنہ کے دل میں موجود تھا جس نے انھیں گناہ سے محفوظ رکھا۔ اللہ کی پناہ! پہلے وہ بت پوجتے تھے اور کسی چیز کی پروا نہ کرتے تھے۔ لیکن اب تو وہ اس اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو رازوں اور پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے۔ یقیناً یہ اللہ پر ایمان ہی تھا جس نے اسلام کی اس جماعت کو مضبوط اور طاقت ور بنا دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر میدانوں میں کود گئے اور اسلام کے پرچم کو بلند کیا۔ مالِ غنیمت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروایا کہ ہر قسم کا مال اور جو بھی |