دیا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ میں اپنی ذہانت سے دشمن کو دور رکھ سکتا ہوں اور جنگ تو دھوکے ہی کا نام ہے۔ آپ مجھے اجازت دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ نعیم رضی اللہ عنہ یہاں سے سیدھے بنو قریظہ کی طرف پہنچ گئے اور ان سے کہنے لگے کہ تم ہمارے آپس کے تعلقات اور سلوک سے آگاہ ہو اور خاص طور پر میرا جو سلوک تمھارے ساتھ رہا ہے تم اس سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔ انھوں نے کہا: اے نعیم! تم ہمارے نزدیک ایک معتبر اور سچے انسان ہو۔ نعیم رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اے بنو قریظہ! قریش اور غطفان کے قبائل اتحاد کرکے مدینہ پر چڑھ دوڑے ہیں اور تم بھی ان کی مدد پر کمر بستہ ہو چکے ہو، حالانکہ تمھارا اور ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے کیونکہ ان کا مال و دولت، بیوی بچے اور ان کا شہر محفوظ ہے ۔ وہ تو اپنے مال و دولت اور بیوی بچوں کے پاس چلے جائیں گے مگر تمھیں اور تمھارے بیوی بچوں کو کہیں سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ لہٰذا تم ان قبائل سے مل کر مسلمانوں کے خلاف مت لڑو۔ اور اگر تم لڑنا ہی چاہتے ہو تو ان قبائل کے سرداروں میں سے ایک گروہ کو گروی رکھ لو۔ تاکہ وہ تمھارے لیے باعث اعتماد ہوں اور تم اس اعتماد کی بنیاد پر ان سے مل کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کا مقابلہ کر سکو۔ انھوں نے کہا: اے نعیم! یقیناً تم نے بہت اچھی رائے دی ہے۔ نعیم رضی اللہ عنہ یہاں سے نکلے اور سیدھے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے پاس جا پہنچے اور ان سے کہنے لگے: اے قریش کی جماعت! تم اپنے ساتھ میرے تعلق اور رویے کو اچھی طرح جانتے ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے میری علیحدگی کے بارے میں بھی تمھیں اطلاع مل گئی ہے۔ |