پاک کپڑے پہنتے ہیں، پھر کلمۂ توحید کی گواہی دینے کے بعد نماز ادا کرتے ہیں۔ اُسید جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ غسل کیا، بدن کو پاک کرکے پاکیزہ کپڑے پہنے اور مصعب رضی اللہ عنہ کے سامنے کلمۂ توحید لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھ لیا۔ مصعب رضی اللہ عنہ نے اسے نماز سکھائی، وہ کھڑا ہوا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ [1] اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد وہ لوگوں کو اسلام کی عظیم دعوت دینے اور اس نئے دین کی خوشخبری سنانے کے لیے نکل پڑے۔ انھوں نے اپنے گھوڑے کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں اور اپنے بچپن کے دوست سعد بن معاذ کی طرف چل دیے۔ سعد کی نظر اُسید رضی اللہ عنہ پر پڑی تو اس نے کہا: اے اُسید! تو نے میرے پیچھے کیا معاملہ کیا؟ اُسید رضی اللہ عنہ نے اسے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس نے سفیرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلنے کی رغبت دلائی۔ چنانچہ اس نے بھی اُسید رضی اللہ عنہ کی طرح اسلام کی بنیادی تعلیمات اور آیاتِ قرآنیہ کو غور سے سنا تو وہ بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ اب وہ دونوں اپنی قوم کی طرف دو نئے آدمی بن کر پلٹے ۔گویا کہ جونہی انھوں نے کلمہ طیبہ پڑھنے کے لیے اپنی اپنی زبان کو جنبش دی تو ان کے دل سے شرک کے تمام وسوسے اور جاہلیت کی تمام باتیں نابود ہو گئیں، جاہ پسندی اور سرداری کی تمام مصلحتیں اور سیاست کے تمام داؤ پیچ نکل گئے۔ اسلام کے عقیدے نے سعد کو اپنی قوم کی مجلس میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنے پر مجبو رکر دیا: اے بنی عبد الاشہل! تم اپنے دل میں میرے معاملے کو کیسا جانتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمارا سردار، ہم میں سب سے زیادہ پاکیزہ اور رائے کے لحاظ سے سب سے بہتر ہے۔سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ پر تمھارے مردوں اور عورتوں سے بات چیت کرنا اس وقت تک حرام ہے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لے آؤ۔[2] |