سننے کے لیے نہیں آیا تھا۔ وہ تو مصعب رضی اللہ عنہ کو سزا دینے اور اس شہر سے نکالنے آیا تھا تاکہ یہ دوبارہ اس شہر کا رخ نہ کر سکے،وہ اپنی غصے بھری کرخت آواز میں کہنے لگا: ’’تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمارے کمزوروں کو بے وقوف بنائے اور ان کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کرے؟ اگر تجھے اپنی جان پیاری ہے تو اس شہر سے بھاگ جا۔‘‘ مصعب رضی اللہ عنہ نے بڑے پیار سے کہا: محترم! کیا آپ بیٹھ کر میری بات سن سکتے ہیں؟ اگر آپ کو ہماری بات پسند آئے تو اسے قبول کر لینا، پسند نہ آئے تو ہم اس سے رک جائیں گے۔ مصعب رضی اللہ عنہ نے اُسید بن حضیر سے بڑے احسن انداز سے بات کی کیونکہ مصعب رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ بندہ مسلمان ہو گیا تو دعوت میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ اُسید بھی بڑا سمجھدار اور جہاندیدہ آدمی تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ اجنبی بڑی معقول اور صحیح بات کر رہا ہے، اور ویسے بھی ایک مہمان سے اس کی بات سنے بغیر بُرا سلوک کرنا اور اسے حق ضیافت سے محروم کردینا بڑی جاہلانہ بات ہے، مجھے اس کی بات ضرور سننی چاہیے۔ غرضیکہ وہ تھوڑی ہی دیر میں نرم پڑ گیا اور مصعب رضی اللہ عنہ کی بات سننے کے لیے تیار ہو گیا۔ مصعب رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا اور قرآن کی آیات پڑھ کر سنائیں۔ تھوڑی ہی دیر میں أسید کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ قرآنی آیات سن کر اُسید کے دل کی دنیا بدل گئی ،وہ بے ساختہ کہنے لگا: یہ کتنا اچھا اور کس قدر خوبصورت کلام ہے۔ یکایک اس نے پوچھا کہ تم جب اس دین میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: غسل کرتے ہیں اور |