طرح قید رکھوں۔ مصعب رضی اللہ عنہ کو ان کی ماں نے بیڑیوں اور زنجیروں سے جکڑ دیا، ایسے عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی۔ مصعب رضی اللہ عنہ نے کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو زنجیروں سے آزاد کیا اور اللہ کی طرف ہجرت کرنے والے اس قافلے سے جا ملے جو قریش کے ستم سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ رہے تھے۔ مصعب رضی اللہ عنہ جب حبشہ سے واپس آئے تو اِن کی جسمانی حالت بدل چکی تھی۔ بھوک اور فاقوں کی و جہ سے یہ سرخ اور نرم گالوں والا چہرہ مرجھا چکا تھا، مضبوط اور توانا جسم لاغر ہو گیا تھا۔ یہ ہنستا کھیلتا چہرہ غموں کے بوجھ سے مرجھا گیا تھا لیکن ایمانی طاقت دل میں موجزن تھی جس نے مصعب کے حوصلوں کو بلند رکھا۔ مصعب رضی اللہ عنہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے۔ مصعب رضی اللہ عنہ پر دھاری دھار چادر کا ایک ٹکڑا تھا جس کو چمڑے کے ساتھ ملا کر آستین بنا لیا گیا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی نظر ان پر پڑی تو انھوں نے رحم کھاتے ہوئے اپنے سروں کو جھکا لیا کیونکہ ان کے پاس بھی مصعب رضی اللہ عنہ کی حالت کو بدلنے کے لیے کچھ نہیں تھا، انھوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اور ان کے ایمان کی تعریف کی اور فرمایا: ’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے دنیا کو اس کے رہنے والوں کے ذریعے بدل دیا ہے۔ میں نے مکہ میں مصعب(رضی اللہ عنہ ) کو دیکھا ہے کہ مکہ میں |