اگلی صبح مصعب رضی اللہ عنہ ایک نئے انسان بن چکے تھے جو اُس مصعب سے یکسر مختلف تھے جس کو اس سے پہلے قریش ایک شہزادے کی حیثیت سے جانتے تھے۔ وہ تنہا رہنے لگے اور تنہائی کو پسند کرنے لگے۔ وہ اکثر بیت اللہ کا طواف کرتے اور اکیلے ہی وہاں بیٹھے رہتے، وہ قریش کی غفلت کا جائزہ لیتے تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاتے اور دیرتک طویل نماز پڑھتے۔ جب شام چھا جاتی تو جلدی جلدی دارارقم بن ابی ارقم کی طرف چلے جاتے تا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اپنے دل کو نورِ ایمان سے منور کریں۔ لیکن یہ سعادت دوام نہ پکڑ سکی۔ وہ اپنے رب کی طرف راستہ پہچان لینے کے بعد گنتی کے چند مہینے ہی راحت اور اطمینان پا سکے۔ عثمان بن ابی طلحہ نے انھیں کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور اس بات کو لوگوں میں پھیلا دیا۔ اس بات کی خبر مصعب کی ماں کو بھی مل گئی۔ یہ دن مصعب رضی اللہ عنہ پر بڑا مشکل گزرا کیونکہ ہر طرف مصعب کو بُرا بھلا کہنے والے لوگ موجود تھے۔ ماں نے کہا: اے مصعب! میں نے سنا ہے کہ تم بے دین ہو گئے ہو، کیا یہ سچ ہے؟ مصعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ماں! رب کعبہ کی قسم! میں نے اللہ کی طرف حق کا راستہ پہچان لیا ہے۔ ماں نے کہا: اے مصعب! تم کون سا الٰہ مراد لیتے ہو؟ مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: یقیناً وہ ایک ہی الٰہ ہے جس نے آسمانوں و زمین کو پیدا کیا، اندھیروں اور روشنی کو پھیلایا اور موت و حیات کو بنایا۔ ماں نے پوچھا: اے مصعب! … کیا لات، مناۃ اور ہبل کے علاوہ بھی کوئی الٰہ ہے؟ مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ماں! میں جانتا ہوں کہ تو عقل مند اور بصیرت والی ہے، مجھے یقین ہے کہ تجھ سے یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہے کہ یہ پتھرکے بت نہ نفع دے سکتے |