سر زمین ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھاری اس مصیبت سے جس میں تم اب مبتلا ہو نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ یقیناً یہ وقتِ ہجرت ہے اور اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔‘‘ عبداللہ اسی وقت اپنے بہن بھائیوں اور تمام گھر والوں سمیت اس سر زمین کی طرف نکل کھڑے ہوئے جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ وہاں کوئی ظلم نہیں کرتا اور وہاں ایسا بادشاہ ہے جو اپنے رب کو پہچانتا ہے۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دین کی پیروی اور اس بارے میں دیگر اطلاعات کا متلاشی رہتا ہے۔ وہ اس دین کی نصرت کی خاطر ہونے والے معرکوں کی خبروں سے بھی باخبر رہتا ہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نجاشی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عمرو بن امیہ الضمری اس کے پاس آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نجاشی کی طرف ایک خط دے کربھیجا تھا۔ جب وہ دربار سے چلے گئے تو میں نے نجاشی سے کہا: یہ آدمی ہمارے دشمن کا قاصد ہے، اس نے ہمیں بڑا ستایا ہے اور اس نے ہمارے سرکردہ اور پسندیدہ لوگوں کو قتل کیا ہے، اس کو میرے حوالے کرو تاکہ میں اسے قتل کروں۔ نجاشی یہ سن کر غضبناک ہو گیا، اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میری ناک پر دے مارا۔ میں سمجھا کہ شاید اس نے میری ناک توڑ دی ہے، میں نے جلدی سے ناک کو سنبھالا اور اپنے کپڑوں کو خون آلود پایا، میں اتنا ذلیل ہوا کہ تمنا کرنے لگا کہ میرے نیچے سے زمین پھٹ جائے اور میں اس میں چھپ جاؤں۔ پھر میں نے کہا: اے بادشاہ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ میری بات پسند نہیں کرتے ہیں تو میں آپ سے سوال ہی نہ کرتا۔ عمرو کہتے ہیں کہ بادشاہ نے مجھ سے کہا: |