اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انھوں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی گورنری کی پیشکش کی۔ لیکن سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا: ’’میں ایسی قوم کا حاکم نہیں بن سکتا جو میرے بارے میں یہ کہتی ہو کہ میں نماز ٹھیک طرح ادا نہیں کرتا۔‘‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تو مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیل گیا لیکن سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اس سے بالکل الگ تھلگ رہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کا بھتیجا ہاشم بن عتبہ بن أبی وقاص آیا اور آپ سے کہا: ’’اے چچا جان! ایک لاکھ تلواریں آپ کا انتظار کر رہی ہیں کہ آپ انھیں استعمال کرنے کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’میں ان ایک لاکھ تلواروں میں سے ایسی تلوار تلاش کر رہا ہوں کہ جب میں اسے کسی مومن پر چلاؤں تو کام نہ کرے لیکن جب میں اس سے کسی کافر پر وار کروں تو اسے کاٹ کر رکھ دے۔‘‘ [1] ایک دفعہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: ’’آپ ہمارے ساتھ مل کر کیوں نہیں لڑتے؟ ‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’مجھ پر ایک کالی آندھی چھا گئی تھی۔ میں نے اپنی سواری کو بٹھانے کے لیے اخ اخ کہا تو وہ بیٹھ گئی حتی کہ آندھی چھٹ گئی۔ پھر میں نے راستہ تلاش کیا اور چل پڑا۔ ‘‘ [2] سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا |